رونے کو مسلمانوں یہی بات بڑی ہے

دربار میں حق بنتِ نبی مانگ رہی ہے

تعظیم کو کل جس کی کھڑے ہوتے تھے احمد

اوباش ہیں بیٹھے ہوئے وہ آج کھڑی ہے

بعد از غمِ پیغمبرِ خاتم پئے زہرا

دکھ درد علی کے ہیں اور اشکوں کی لڑی ہے

کس طرح دیا جائے امامت کو تحفظ

دروازہ و دیوار سے یہ بات کھلی ہے

پہلو کو.سنبھالے یا بچائے وہ علی کو

بنتِ شہِ لولاک پہ کیا سخت گھڑی ہے

اس دھر میں کیا عشقِ علی کے ہیں تقاضے

زہرا یہ جہاں والوں کو سِکھلا کے گئی ہے

سہہ جانا ہراک ظلم ولایت کی بقاء کو

یہ رسم زمانے میں ترے دم سے چلی ہے

امت کے مظالم کا.بیاں ہے یہ وصیت

تاریکی میں دفنانے کی.زہرا نے.جو کی ہے

صائب مِرے دن رات کا  بس یہ ہے خلاصہ

میں ہو غم زہرا ہے ان آنکھوں کی نمی.ہے

۲۲ جنوری ۲۰۹


مشخصات

آخرین مطالب این وبلاگ

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها