انا کا خول توڑ کر اگرچہ کچھ بکھر گیا
مگر بفیضِ عشق میں حقیتاً سنور گیا
کسوفِ غم سے شمسِ انبساط پائے گا نجات
یہ زندگی کا سلسلہ ظہور تک اگر گیا
اگر تمہارے عشق کا ہیں ارمغاں، قبول ہیں
جنوں کی تہمتیں زمانہ سر مرے جو دھر گیا
تمام چاہ خشک تھے ہرایک در پہ قفل تھا
مگر تمہاری چاہ میں غریب دربدر گیا
یہ زہر ہجر تلخ ہے مگر اسی کے فیض سے
خدا کا شکر جز ترے ہر اعتبار مر گیا
زمانے کو خبر نہیں، مریض عشق ہوکے چپ
خود اپنے دل میں کھوجتا ہے چارہ گر کدھر گیا
بہار رت کے سارے منظروں کو کھا گئی کُہُر
*غمِ فراقِ یار چشمِ شوق میں اتر گیا*
اٹھا جو شب کی کوکھ سے فقط شرار تھا مگر
پئے مآل آرزو وہ تا دم سحر گیا
گمان کے سراب سے شہود کے یقین تک
شعور سربسر گیا مگر بچشم تر گیا
سوائے وصل یار کے کچھ آنکھ میں بچا نہیں
ہرایک خواب ٹوٹ کر وجود میں بکھر گیا
تمہارے نقش پا سے گر جبیں کوئی چرا گیا
تو بے سیاں ملیں سجود سے اثر گیا
کہاں کی نیند کیسا خواب کیا س کیا قرار
اگر نہیں ہے بَر میں یار سمجھو رند مر گیا
عریضہ ان کے ہاتھ میں پہنچ چکا ہے بالیقیں
کہ صائبِ حزیں کا بے قرار دل ٹھہر گیا

صائب جعفری
۱۴ شعبان المعظم ۱۴۴۱ ھ
۸ اپریل ۲۰۲۰ ء


مشخصات

آخرین مطالب این وبلاگ

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها