کلیاتِ صائب جعفری (نظم و نثر)



رونے کو مسلمانوں یہی بات بڑی ہے

دربار میں حق بنتِ نبی مانگ رہی ہے

تعظیم کو کل جس کی کھڑے ہوتے تھے احمد

اوباش ہیں بیٹھے ہوئے وہ آج کھڑی ہے

بعد از غمِ پیغمبرِ خاتم پئے زہرا

دکھ درد علی کے ہیں اور اشکوں کی لڑی ہے

کس طرح دیا جائے امامت کو تحفظ

دروازہ و دیوار سے یہ بات کھلی ہے

پہلو کو.سنبھالے یا بچائے وہ علی کو

بنتِ شہِ لولاک پہ کیا سخت گھڑی ہے

اس دھر میں کیا عشقِ علی کے ہیں تقاضے

زہرا یہ جہاں والوں کو سِکھلا کے گئی ہے

سہہ جانا ہراک ظلم ولایت کی بقاء کو

یہ رسم زمانے میں ترے دم سے چلی ہے

امت کے مظالم کا.بیاں ہے یہ وصیت

تاریکی میں دفنانے کی.زہرا نے.جو کی ہے

صائب مِرے دن رات کا  بس یہ ہے خلاصہ

میں ہو غم زہرا ہے ان آنکھوں کی نمی.ہے

۲۲ جنوری ۲۰۹


زکریا شہید

مدینے سے خبر کیسی یہ آئی

دہائی یا رسول اللہ دہائی

سنا ہے عشق آلِ مصطفیٰ میں

سنا ہے جرمِ عشق مرتضیٰ میں

چمن پھر سے کوئی لوٹا گیا ہے

کوئی گل پھر وہاں مسلا گیا ہے

ابو سفیان کی اولاد نے پھر

علی والوں کی بربادی کی.خاطر

کسی بےچاری ماں کے سامنے ہی

کسی کمسن کی گردن.کاٹ ڈالی

تڑپ کر جان وہ دینے لگا جب

تماشائی بنے ہنستے رہے سب

کوئی اک بھی نا آیا بہر امداد

شقی کرتا رہا بچے پہ بیداد

وہ بےکس ماں رہی چلاتی روتی

پسر کے خون کو اشکوں سے دھوتی

ہوا بےجاں تڑپ کر جب وہ نورس

فرشتے خاک اڑاتے رہ گئے بس

مدینے میں صدا پھر سے یہ گونجی

دہائی یا رسول اللہ دہائی

۱۲ فروری ۲۰۱۹

۶ جمادی الثانیہ ۱۴۴۰


ابو محمد جعفری صائب:

عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا

کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا

ــــــــــــــــــــــــــــ

جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش

اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ادامه مطلب


رونے کو مسلمانوں یہی بات بڑی ہے

دربار میں حق بنتِ نبی مانگ رہی ہے

تعظیم کو کل جس کی کھڑے ہوتے تھے احمد

اوباش ہیں بیٹھے ہوئے وہ آج کھڑی ہے

بعد از غمِ پیغمبرِ خاتم پئے زہرا

دکھ درد علی کے ہیں اور اشکوں کی لڑی ہے

کس طرح دیا جائے امامت کو تحفظ

دروازہ و دیوار سے یہ بات کھلی ہے

پہلو کو.سنبھالے یا بچائے وہ علی کو

بنتِ شہِ لولاک پہ کیا سخت گھڑی ہے

اس دھر میں کیا عشقِ علی کے ہیں تقاضے

زہرا یہ جہاں والوں کو سِکھلا کے گئی ہے

سہہ جانا ہراک ظلم ولایت کی بقاء کو

یہ رسم زمانے میں ترے دم سے چلی ہے

امت کے مظالم کا.بیاں ہے یہ وصیت

تاریکی میں دفنانے کی.زہرا نے.جو کی ہے

صائب مِرے دن رات کا  بس یہ ہے خلاصہ

میں ہو غم زہرا ہے ان آنکھوں کی نمی.ہے

۲۲ جنوری ۲۰۹


مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی 

 شعری نشست میں پڑھی گئی غزل

ـــــــــــــــــــ

صائب جعفری

ــــــــــــــــــــ

کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے

مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے

ادامه مطلب


مولانا مبارک زیدی قمی کی فرمائش پر مصرع طرح پر لکھے گئے اشعار


۱.خلد و کوثر پہ حق ذرا نہ ہوا

جس کا حیدر سے رابطہ نہ ہوا


۲.بے ولائے علی نبی کی ثنا

شُکْر  میں ایسا بے وفا نہ ہوا


۳.سو کے پہلوئے مصطفیٰ میں بھی

مثلِ الماس، کوئلہ نہ ہوا

ادامه مطلب


بیدار شو.

ازقلم صائب جعفری


بھلا کہاں تک یہ خواب غفلت بھلا کہاں تک بلا کی نفرت 

زمانے کی کروٹوں نے انساں سے چھین لی آبر و  و عظمت 

اب آنکھیں کھولو یہ آمریت نہیں فقط دشمنِ مسلماں 

تباہ کاری ہے اس کا مقصد، ہدف ہے اس کا ہر ایک انساں 

زمین کا ہو کوئی بھی خطہ نہیں ہے محفوظ آج شر سے 

عجب ہے عالم کہ آج انساں جو ہنس رہا ہے تو وہ بھی ڈر سے 

ادامه مطلب


ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا

نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا

.

مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے

پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا

.

پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر

کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا

ادامه مطلب


ابو محمد جعفری صائب:

عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا

کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا

ــــــــــــــــــــــــــــ

جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش

اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ادامه مطلب


مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی 

 شعری نشست میں پڑھی گئی غزل

ـــــــــــــــــــ

صائب جعفری

ــــــــــــــــــــ

کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے

مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے

ادامه مطلب


بیدار شو.

ازقلم صائب جعفری


بھلا کہاں تک یہ خواب غفلت بھلا کہاں تک بلا کی نفرت 

زمانے کی کروٹوں نے انساں سے چھین لی آبر و  و عظمت 

اب آنکھیں کھولو یہ آمریت نہیں فقط دشمنِ مسلماں 

تباہ کاری ہے اس کا مقصد، ہدف ہے اس کا ہر ایک انساں 

زمین کا ہو کوئی بھی خطہ نہیں ہے محفوظ آج شر سے 

عجب ہے عالم کہ آج انساں جو ہنس رہا ہے تو وہ بھی ڈر سے 

ادامه مطلب



آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا

دین کی کشتی بھنور میں تھی کنارا مل گیا

”برزخ لا یبغیاں" کو مل گئی تاویل اور

”لولو و مرجان"  کو عصمت کا دھارا مل گیا

تھا ستیزہ کار نورِ فاطمہ سے دیکھئے

خاک میں کیسے سقیفہ کا شرارا مل گیا

ادامه مطلب


عیوب قافیہ

جمع و تدوین :صائب جعفری

۱۔ایطا یا شائیگاں

جب مطلع کےدونوں مصرعوں میں روی کا حرف ایک  ہی معنی رکھتا ہو کہ جس سے تکرارِ معنی ثابت ہوتی ہو ایسے لفطوں کا ایک مطلع میں لانا جائز نہیں  ہے اور اس عیب کا نام ایطا ہے، لیکن یہ قید صرف مطلع کے لئے ہےابیات میں ایطاء ہو تو شعرائے اردو نے جائز رکھا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ حرف روی ایک ہی معنی کا مکرر ،مطلع  میں آئے۔ کاملاں اور قاتلاں کا قافیہ جائز ہے کیونکہ قاتل  اور کامل میں حرف روی لام ہے اور دونوں لفظوں  کے معنی الگ الگ ہیں اور الف نون وصل و خروج  ہیں اس لئے یہ قافیہ جائز ہے لیکن قاتلاں اور عالماں کا قافیہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ الف و نون کو روی نہیں بنا سکتے کیونکہ نون دونوں قافیوں میں ایک ہی معنی رکھتا ہے اور افادہِ معنئِ جمع دیتا ہے دونوں حرفوں کو نکالنے کے بعد قاتل اور عالم ہم قافیہ نہیں ہوسکتے اس لئے اگر ان کو  بلحاظ نون، روی سمجح کر قافیہ کریں  یہ ایطا ہے کیونکہ دونوں لفظوں میں   الف نون الحاقی ہےاور ایک ہی معنی میں ہے۔

ادامه مطلب


عیوب قافیہ

جمع و تدوین :صائب جعفری

۱۔ایطا یا شائیگاں

جب مطلع کےدونوں مصرعوں میں روی کا حرف ایک  ہی معنی رکھتا ہو کہ جس سے تکرارِ معنی ثابت ہوتی ہو ایسے لفطوں کا ایک مطلع میں لانا جائز نہیں  ہے اور اس عیب کا نام ایطا ہے، لیکن یہ قید صرف مطلع کے لئے ہےابیات میں ایطاء ہو تو شعرائے اردو نے جائز رکھا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ حرف روی ایک ہی معنی کا مکرر ،مطلع  میں آئے۔ کاملاں اور قاتلاں کا قافیہ جائز ہے کیونکہ قاتل  اور کامل میں حرف روی لام ہے اور دونوں لفظوں  کے معنی الگ الگ ہیں اور الف نون وصل و خروج  ہیں اس لئے یہ قافیہ جائز ہے لیکن قاتلاں اور عالماں کا قافیہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ الف و نون کو روی نہیں بنا سکتے کیونکہ نون دونوں قافیوں میں ایک ہی معنی رکھتا ہے اور افادہِ معنئِ جمع دیتا ہے دونوں حرفوں کو نکالنے کے بعد قاتل اور عالم ہم قافیہ نہیں ہوسکتے اس لئے اگر ان کو  بلحاظ نون، روی سمجح کر قافیہ کریں  یہ ایطا ہے کیونکہ دونوں لفظوں میں   الف نون الحاقی ہےاور ایک ہی معنی میں ہے۔

ادامه مطلب



آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا

دین کی کشتی بھنور میں تھی کنارا مل گیا

”برزخ لا یبغیاں" کو مل گئی تاویل اور

”لولو و مرجان"  کو عصمت کا دھارا مل گیا

تھا ستیزہ کار نورِ فاطمہ سے دیکھئے

خاک میں کیسے سقیفہ کا شرارا مل گیا

ادامه مطلب


مولانا مبارک زیدی قمی کی فرمائش پر مصرع طرح پر لکھے گئے اشعار


.خلد و کوثر پہ حق ذرا نہ ہوا

جس کا حیدر سے رابطہ نہ ہوا


بے ولائے علی نبی کی ثنا

شُکْر  میں ایسا بے وفا نہ ہوا


سو کے پہلوئے مصطفیٰ میں بھی

مثلِ الماس، کوئلہ نہ ہوا

ادامه مطلب


ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا

نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا

.

مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے

پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا

.

پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر

کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا

ادامه مطلب



عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا

کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا

ــــــــــــــــــــــــــــ

جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش

اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ادامه مطلب


صائب جعفری:

۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ نے غالب کے یوم ولادت کی مناسبت سے شعری ادبی نشست کا اہتمام کیا جس میں تمام شعراء نے غالب کی مختلف غزلوں پر تضمین پیش کی وہیں راقم الحروف صائب جعفری نے غالب کی ایک زمین میں چند ابیات کہنے کی جسارت کی اور غالب کے مصرع "طاقت بیداد انتظار نہیں ہے" پر تضمین کی جو پیش خدمت ہے.



گلشن احساس پُر بہار نہیں ہے

کیونکہ میسر ترا جوار نہیں ہے

ادامه مطلب


حسنین پہ ہے آفت کی گھڑی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر

روتے ہیں نبی روتے ہیں علی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر


بابا کی جدائی میں زہرا محروم ہیں اشک بہانے سے

رونے پہ لگی ہے پابندی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر


وہ جس کے ناز اٹھائے خدا تعظیم کریں جس کی احمد

دربار میں ہے بے آس کھڑی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر

ادامه مطلب


ہو سکے تو یہ وصیت ہے نبھانا اے علی

غم میں زہرا کے نہ دل اپنا جلانا اے علی


دمِ رخصت یہ فقط آپ سے کہنا ہے علی

رات کے وقت مجھے غسل و کفن دینا تمہی

ہو جنازے میں نا شامل میرے کوئی بھی شقی

قبر بھی دنیا سے رکھنا اے علی تم مخفی

بہرِ رب میری وصیت کو نبھانا اے علی

ادامه مطلب


میانِ آدم و ابلیس جو ازل سے چھڑا

وہ معرکہ ہے ابھی تک زمیں پر برپا

ہر ایک دور میں حق والے جان دیتے رہے

ہر ایک دور میں حق خوں سے سرخرو ٹھہرا

ڈٹے رہے سر میدانِ حق نبی لیکن

یہ جنگ پہنچی سرِ کربلا تو راز کھلا

نشانِ ہمت و صبر و رضا ہے نام حسین

مقاومت کا ہے مظہر زمینِ کرب و بلا

زمینِ کرب و بلا ہے، زمین عالم کی

ہر ایک روز ہے مانند روزِ عاشورا

ادامه مطلب


سلیقہ ایک ہی جیسا محمد اور جعفر کا

قرینہ ایک ہی ابھرا محمد اور جعفر کا

ہے ریشہ ایک ہی حقا محمد اور جعفر کا


نہیں فرق اک نہیں ابن محمد اور محمد میں

شمائل میں خصائل میں فضائل اور ابجد میں

نتیجہ ایک ہی نکلا محمد اور جعفر کا

ادامه مطلب


۵ جمادی الاولیٰ جناب زینب کبریٰ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے چند اشعار

ـــــــــــــــ

اسی عنوان سے کھولا گیا باب زینب

دین اسلام ہے دراصل شباب زینب

.

عالم خلق میں تکرار کا امکاں ہی نہیں

دہر میں ڈھونڈئیے اب آپ جواب زینب

ادامه مطلب


چند رباعیات اہل ذوق کی نظر



خواہش ہے اس طرح سنوارا جاؤں

تیرے حب کے طفیل مارا جاؤں

ورنہ اعمال پر سرِ م میں

جانے کس نام سے پکارا جاؤں

ــــــــــــــــــــ

ناراض نہیں ہوتا وہ مثلِ بشر

میں بھول بھی جاؤں تو رکھتا ہے خبر

ادامه مطلب


گیا حیات کو اس طرح سرخرو  کرکے

تحریر : صائب جعفری

۱۱ فروری ۲۰۱۴

زندگی خوشیوں اور غموں کے مجموعه کا نام ہے اور یہ مجموعہ معاشرتی میل ملاپ اور لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ، رکھ رکھاؤ اور گفتار و رفتار سے ترتیب پاتا ہے. خدا نے انسان کو اس نہج پر خلق کیا ہےکہ وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا. فطرتاً و ضرورتاً انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے کبھی اپنے غم غلط کرنے کے لئے تو کبھی اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے. ہر انسان کی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں جن کے طفیل زندگی میں میلا لگا رہتا ہے اسی ہجوم دوستاں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ گو آپ کی ان سے ملاقات انتہائی کم.ہوتی ہے

ادامه مطلب


سید رضا ہاشمی کی فارسی تحریر کا اردو ترجمہ

مترجم صائب جعفری

اپریل ۲۰۱۹


بنام خدائے رحمان و رحیم

#عرفان، ایک شادی شدہ مرد ہے جو اچانک ایک معشقہ میں گرفتار ہوجاتا ہے، اس کو ہدف کے حصول میں بہت سےواقعات پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔

ادامه مطلب



فلسفہ نزول بلاء

) بالخصوص ابتلائے صالحین 

تحقیق: صائب جعفری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

فہرست

خلاصہ

:

مقدمہ

فصل اوّل۔ کلیات و مفاہیم

۱۔ مفہوم ابتلأ

۲۔ مفہوم ابتلأ خود قرآن کی نگاہ میں

۱۔۲- پہلا حصّہ

۲۔۲- حصّہ دوم

۳- عمومیت سنت آزمائش و امتحان

۴- آزمائش کا انسانی اختیار کے ساتھ رابطہ

فصل دوم قرآنی فلسفہ ابتلاء

۱- قرآنی آیات کے پرتو میں فلسفہ ابتلأ

ادامه مطلب



فلسفہ نزول بلاء

) بالخصوص ابتلائے صالحین 

تحقیق: صائب جعفری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

فہرست

خلاصہ

:

مقدمہ

فصل اوّل۔ کلیات و مفاہیم

۱۔ مفہوم ابتلأ

۲۔ مفہوم ابتلأ خود قرآن کی نگاہ میں

۱۔۲- پہلا حصّہ

۲۔۲- حصّہ دوم

۳- عمومیت سنت آزمائش و امتحان

۴- آزمائش کا انسانی اختیار کے ساتھ رابطہ

فصل دوم قرآنی فلسفہ ابتلاء

۱- قرآنی آیات کے پرتو میں فلسفہ ابتلأ

ادامه مطلب


منقبت

جو نقش پہ حیدر کے چلتا نظر آتا ہے

انساں وہ فرشتوں سے بالا نظر آتا  ہے

کعبہ سے جو لپٹا ہے حیدر کی عداوت میں

ساحل پہ کھڑا ہوکر پیاسا نظر آتا ہے

اوّل ہے جو خلقت میں افضل ہے جو خلقت سے

کچھ عقل کے اندھوں کو چوتھا نظر آتا ہے

ادامه مطلب


گیا حیات کو اس طرح سرخرو  کرکے

تحریر : صائب جعفری

۱۱ فروری ۲۰۱۴

زندگی خوشیوں اور غموں کے مجموعه کا نام ہے اور یہ مجموعہ معاشرتی میل ملاپ اور لوگوں کے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ، رکھ رکھاؤ اور گفتار و رفتار سے ترتیب پاتا ہے. خدا نے انسان کو اس نہج پر خلق کیا ہےکہ وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا. فطرتاً و ضرورتاً انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے کبھی اپنے غم غلط کرنے کے لئے تو کبھی اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لئے. ہر انسان کی زندگی میں سینکڑوں ہزاروں لوگ آتے جاتے ہیں جن کے طفیل زندگی میں میلا لگا رہتا ہے اسی ہجوم دوستاں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ گو آپ کی ان سے ملاقات انتہائی کم.ہوتی ہے

ادامه مطلب


سید رضا ہاشمی کی فارسی تحریر کا اردو ترجمہ

مترجم صائب جعفری

اپریل ۲۰۱۹


بنام خدائے رحمان و رحیم

#عرفان، ایک شادی شدہ مرد ہے جو اچانک ایک معشقہ میں گرفتار ہوجاتا ہے، اس کو ہدف کے حصول میں بہت سےواقعات پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔

ادامه مطلب



فلسفہ نزول بلاء

) بالخصوص ابتلائے صالحین 

تحقیق: صائب جعفری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

فہرست

خلاصہ

:

مقدمہ

فصل اوّل۔ کلیات و مفاہیم

۱۔ مفہوم ابتلأ

۲۔ مفہوم ابتلأ خود قرآن کی نگاہ میں

۱۔۲- پہلا حصّہ

۲۔۲- حصّہ دوم

۳- عمومیت سنت آزمائش و امتحان

۴- آزمائش کا انسانی اختیار کے ساتھ رابطہ

فصل دوم قرآنی فلسفہ ابتلاء

۱- قرآنی آیات کے پرتو میں فلسفہ ابتلأ

ادامه مطلب


عیوب قافیہ

جمع و تدوین :صائب جعفری

۱۔ایطا یا شائیگاں

جب مطلع کےدونوں مصرعوں میں روی کا حرف ایک  ہی معنی رکھتا ہو کہ جس سے تکرارِ معنی ثابت ہوتی ہو ایسے لفطوں کا ایک مطلع میں لانا جائز نہیں  ہے اور اس عیب کا نام ایطا ہے، لیکن یہ قید صرف مطلع کے لئے ہےابیات میں ایطاء ہو تو شعرائے اردو نے جائز رکھا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ حرف روی ایک ہی معنی کا مکرر ،مطلع  میں آئے۔ کاملاں اور قاتلاں کا قافیہ جائز ہے کیونکہ قاتل  اور کامل میں حرف روی لام ہے اور دونوں لفظوں  کے معنی الگ الگ ہیں اور الف نون وصل و خروج  ہیں اس لئے یہ قافیہ جائز ہے لیکن قاتلاں اور عالماں کا قافیہ جائز نہیں ہے اس لئے کہ الف و نون کو روی نہیں بنا سکتے کیونکہ نون دونوں قافیوں میں ایک ہی معنی رکھتا ہے اور افادہِ معنئِ جمع دیتا ہے دونوں حرفوں کو نکالنے کے بعد قاتل اور عالم ہم قافیہ نہیں ہوسکتے اس لئے اگر ان کو  بلحاظ نون، روی سمجح کر قافیہ کریں  یہ ایطا ہے کیونکہ دونوں لفظوں میں   الف نون الحاقی ہےاور ایک ہی معنی میں ہے۔

ادامه مطلب



آگئیں زہرا نبوت کو سہارا مل گیا

دین کی کشتی بھنور میں تھی کنارا مل گیا

”برزخ لا یبغیاں" کو مل گئی تاویل اور

”لولو و مرجان"  کو عصمت کا دھارا مل گیا

تھا ستیزہ کار نورِ فاطمہ سے دیکھئے

خاک میں کیسے سقیفہ کا شرارا مل گیا

ادامه مطلب


مورخہ ۱۶ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ کی پہلی 

 شعری نشست میں پڑھی گئی غزل

ـــــــــــــــــــ

صائب جعفری

ــــــــــــــــــــ

کائناتِ دلِ غمِ گزیدہ تیرے فرماں کے زیرِ نگیں ہے

مہبطِ شادئِ قلبِ عاشق ٹھوکروں میں تری جاگزیں ہے

ادامه مطلب


مولانا مبارک زیدی قمی کی فرمائش پر مصرع طرح پر لکھے گئے اشعار


.خلد و کوثر پہ حق ذرا نہ ہوا

جس کا حیدر سے رابطہ نہ ہوا


بے ولائے علی نبی کی ثنا

شُکْر  میں ایسا بے وفا نہ ہوا


سو کے پہلوئے مصطفیٰ میں بھی

مثلِ الماس، کوئلہ نہ ہوا

ادامه مطلب


بیدار شو.

ازقلم صائب جعفری


بھلا کہاں تک یہ خواب غفلت بھلا کہاں تک بلا کی نفرت 

زمانے کی کروٹوں نے انساں سے چھین لی آبر و  و عظمت 

اب آنکھیں کھولو یہ آمریت نہیں فقط دشمنِ مسلماں 

تباہ کاری ہے اس کا مقصد، ہدف ہے اس کا ہر ایک انساں 

زمین کا ہو کوئی بھی خطہ نہیں ہے محفوظ آج شر سے 

عجب ہے عالم کہ آج انساں جو ہنس رہا ہے تو وہ بھی ڈر سے 

ادامه مطلب


ایسے بھی میری بات کو سنتا کوئی تو کیا

نکتہ نہ میری بات میں نکلا کوئی تو کیا

.

مقیاس تھے شکستہ تو معیار خام تھے

پورا کسوٹیوں پہ اترتا کوئی تو کیا

.

پاتال میری منزل آخر ہے، جان کر

کچھ دور میرے ساتھ میں چلتا کوئی تو کیا

ادامه مطلب



عجیب سودا مرے سر میں جو سخاوت کا تھا

کھلا یہ راز کہ خمیازہ سب محبت کا تھا

ــــــــــــــــــــــــــــ

جو نقدِ حضرتِ جاہل پہ میں رہا ہوں خاموش

اثر یہ علم و ہنر کا تھا اور شرافت کا تھا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ادامه مطلب


صائب جعفری:

۲۷ دسمبر ۲۰۱۸ کو بزم استعارہ نے غالب کے یوم ولادت کی مناسبت سے شعری ادبی نشست کا اہتمام کیا جس میں تمام شعراء نے غالب کی مختلف غزلوں پر تضمین پیش کی وہیں راقم الحروف صائب جعفری نے غالب کی ایک زمین میں چند ابیات کہنے کی جسارت کی اور غالب کے مصرع "طاقت بیداد انتظار نہیں ہے" پر تضمین کی جو پیش خدمت ہے.



گلشن احساس پُر بہار نہیں ہے

کیونکہ میسر ترا جوار نہیں ہے

ادامه مطلب


حسنین پہ ہے آفت کی گھڑی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر

روتے ہیں نبی روتے ہیں علی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر


بابا کی جدائی میں زہرا محروم ہیں اشک بہانے سے

رونے پہ لگی ہے پابندی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر


وہ جس کے ناز اٹھائے خدا تعظیم کریں جس کی احمد

دربار میں ہے بے آس کھڑی کیا وقت پڑا ہے زہرا پر

ادامه مطلب


ہو سکے تو یہ وصیت ہے نبھانا اے علی

غم میں زہرا کے نہ دل اپنا جلانا اے علی


دمِ رخصت یہ فقط آپ سے کہنا ہے علی

رات کے وقت مجھے غسل و کفن دینا تمہی

ہو جنازے میں نا شامل میرے کوئی بھی شقی

قبر بھی دنیا سے رکھنا اے علی تم مخفی

بہرِ رب میری وصیت کو نبھانا اے علی

ادامه مطلب


میانِ آدم و ابلیس جو ازل سے چھڑا

وہ معرکہ ہے ابھی تک زمیں پر برپا

ہر ایک دور میں حق والے جان دیتے رہے

ہر ایک دور میں حق خوں سے سرخرو ٹھہرا

ڈٹے رہے سر میدانِ حق نبی لیکن

یہ جنگ پہنچی سرِ کربلا تو راز کھلا

نشانِ ہمت و صبر و رضا ہے نام حسین

مقاومت کا ہے مظہر زمینِ کرب و بلا

زمینِ کرب و بلا ہے، زمین عالم کی

ہر ایک روز ہے مانند روزِ عاشورا

ادامه مطلب


سلیقہ ایک ہی جیسا محمد اور جعفر کا

قرینہ ایک ہی ابھرا محمد اور جعفر کا

ہے ریشہ ایک ہی حقا محمد اور جعفر کا


نہیں فرق اک نہیں ابن محمد اور محمد میں

شمائل میں خصائل میں فضائل اور ابجد میں

نتیجہ ایک ہی نکلا محمد اور جعفر کا

ادامه مطلب


۵ جمادی الاولیٰ جناب زینب کبریٰ کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے چند اشعار

ـــــــــــــــ

اسی عنوان سے کھولا گیا باب زینب

دین اسلام ہے دراصل شباب زینب

.

عالم خلق میں تکرار کا امکاں ہی نہیں

دہر میں ڈھونڈئیے اب آپ جواب زینب

ادامه مطلب


چند رباعیات اہل ذوق کی نظر



خواہش ہے اس طرح سنوارا جاؤں

تیرے حب کے طفیل مارا جاؤں

ورنہ اعمال پر سرِ م میں

جانے کس نام سے پکارا جاؤں

ــــــــــــــــــــ

ناراض نہیں ہوتا وہ مثلِ بشر

میں بھول بھی جاؤں تو رکھتا ہے خبر

ادامه مطلب


- نوحہ

ہر آس مری نورِ نظر ٹوٹ گئی ہے

عباس کے مرنے سے کمر ٹوٹ گئی ہے


آتا ہی نہیں کچھ بھی نظر تم ہی صدا دو

آواز اے ہم شکلِ نبی اپنی سنا دو

پھر صورتِ محبوبِ خدا ہم کو دکھا دو

ہم ڈھونڈتے ہیں  تم کو نشاں اپنا بتا دو

اب قوت تنویرِ بصر ٹوٹ گئی ہے

ادامه مطلب



فلسفہ نزول بلاء

) بالخصوص ابتلائے صالحین 

تحقیق: صائب جعفری

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم


خلاصہ:

  امتحانات الہی اور نزول بلا ایک مہم مسئلہ ہے جس پر تحقیق کی ضرورت ہر دور میں ہے ۔بالخصوص وہ امتحانات جو خدا وند کریم نے اپنے اولیاء سے لئے ان کا سبب اور فلسفہ کیا ہے؟  خدا عالم کل ہونے کے باوجود آخر کیوں امتحان لیتا ہے ؟اور ان امتحانات کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟۔اس تحقیق میں امتحان اور نزول بلا کے عالم مادہ کا خاصہ ہونے کے عنوان سے زیادہ بحث نہیں کی گئی کیوں کہ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر دقیق تحقیق کی ضرورت ہے اس تحقیقی میں حتیٰ المقدور کوشش کی گئی ہے کہ عوام الناس میں امتحان و بلا سے متعلق رائج سوالات کا جواب مقالہ کی حدود اور وسعت کو مد نظر رکھ کر دیا جائے اور اپنے بیان پر آیت اور روایت کے ذریعے ثبوت فراہم کیا جائے اور اس بات کو واضح کیا جائے کہ اولیائے الہی کا امتحان گناہگار بندوں کے امتحان سے علیحدہ ہوتا ہے ہر چند ان کے مراتب خدا  کی جانب سے ان کو اول عنایت ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کو کسوٹی پر کسا جاتا ہے تاکہ لوگ جان لیں کہ خدا نے جو فیصلہ اپنے علم کے مطابق کیا تھا وہ درست تھا اور اولیاء انہی مراتب کے حقدار تھے

ادامه مطلب


قلب میں اترا ہوا عشق علی گر ہوگا

دل سے پھر اترا ہوا دنیا کا سب زر ہوگا

عید کی خوشیاں منائے گا وہی پڑھ کے درود

مثل قنبر جو یہاں بندہ حیدر ہوگا

وہ بھی امریکہ سے بھڑ جائے گا رہبر کی طرح

نقشِ نعلینِ علی جس کے بھی دل پر ہوگا

چرس افیون ہیروئین شراب اور شباب

قبر میں پیٹتا سر اپنا قلندر ہوگا

باندھ کر جس کو بنے پھرتے ہوں کتّے عالم

ایسی دستار سے پیشاب بھی بہتر ہوگا

ایک نعرے پہ حلالی و حرامی جو بنائے

سرِ منبر ابوسفیان کا بندر ہوگا

نام رکھ لینے سے بنتا نہیں کوئی عاشق

عشق کردار میں جو ڈھال لے بوذر ہوگا

وہی کھولے گا زباں قدس کی خاطرصائب

خاک کربل سے اٹھا جس کا بھی جوہر ہوگا

۵ جون ۲۰۱۹

شب عیدالفطر ۱۴۴۰

۴:۰۵ صبحدم

ــــــــــــــــ

ہر ہر مسلمان کو عید مبارک



طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے

فرشتے بیٹھے ہیں محفل یہاں جمائے ہوئے

تمہاری یاد کو ہم دل میں ہیں بسائے ہوئے

تو لوح و عرش سبھی دل میں ہیں سمائے ہوئے

فرشتے زیر قدم پر ہیں یوں بچھائے ہوئے

"ہم آج محفلِ سجاد میں ہیں آئے ہوئے"

ادامه مطلب



دل ہے صحرا یہ کوئی باغ یا گار نہیں

ہر کسی پر ہوئے روشن مرے اسرار نہیں

حسن جب حد سے بڑھے ہوتا ہے اسرار آمیز

بے تحاشہ ہیں حسین آپ پر اسرار نہیں

یہ صفت رکھ کے بھی یہ لوگ منافق نہ ہوئے

آتشیں روحیں ہیں اور جسم کہ انگار نہیں

ادامه مطلب


صائب جعفری:
طلوعِ عشق
مقابلۂ حمد و نعت
 
بحمداللہ قم المقدسہ میں مقیم اُردو شعراء کی ’’بزم استعارہ‘‘ نے حق تعالیٰ جل‌جلاله اور حبیبِ داور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک شعری مقابلے کا اہتمام کیا ہے، جو فی الحال صرف ایران میں مقیم اردو شعراء (شاعران و شاعرات)تک محدود ہےلہٰذا ایران میں مقیم اردو شعراء کو اس مقابلے میں شرکت کی عام دعوت ہےـ وہ طلاب اساتید اور دیگر افراد جو تبلیغ یا گرمیوں کی چھٹی کی وجہ سے فی الحال ایران سے باہر ہیں مگر ایران میں انکی اقامت وہ بھی اس مقابلے میں حصہ لینے کے اہل ہونگےـ
 
مقابلے میں شرکت کی شرائط:
(۱) شاعرو شاعرہ کا ایران میں مقیم ہونا ضروری ہے۔ (۲) مقابلے میں صرف حمد و نعت شامل کی جائیں گی۔ (۳)ایک شاعر یا شاعرہ زیادہ سے زیادہ ۵ حمدیں اور ۵ نعتیں ارسال کرسکتا ہے۔ (۴) حمد و نعت میں ممدوح سے ہٹ کر اشعار  قابل قبول نہیں ہوں گے۔ (۵) جیتنے والے افراد کسی ایک ہی صنف (حمد / نعت) میں انعام کے حقدار قرار پائیں گے۔ (۶) حمد اور نعت ۱۵ صفر المظفر ۱۴۴۱ھ تک موصول ہوجانی چاہیئں۔ (۷) حمد و نعت کے ہمراہ واٹس ایپ اور رابطہ کا نمبر ضرور ارسال کریں۔ (۸) نتائج کا اعلان ۱۷ ربیع الاول ۱۴۴۱ھ کو کیا جائے گا۔
1⃣پہلا انعام:250،000  تومان
2⃣دوسرا انعام:150،000 تومان
3⃣تیسرا انعام:100،000 تومان
اس اشتہار کو حتی الامکان سوشل میڈیا پر نشر کر کے آپ بھی اس کارِ خیر میں شریک ہو سکتے ہیں۔
 
❇آپ اپنا کلام درج ذیل واٹس ایپ نمبر یا ایمیل پر ارسال کر سکتے ہیں:
0910-4632298
bazmeistiaara@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
⬅منجانب: بزم استعارہ۔ قم المقدسہ
 
مقابلہ حمد و نعت

 


اطلاع:
حمد و نعت ارسال کرنے کی تاریخ میں توسیع
ہم ان تمام احباب کے سپاس گذار ہیں جنہوں نے حمد اور نعت ارسال کی احباء کے اصرار پر حمد و نعت ارسال کرنے کی تاریخ میں توسیع کردی گئی ہے. آخری تاریخ ۸ ربیع الاول ۱۴۴۱ ہے. 
طلوعِ عشق
مقابلۂ حمد و نعت

بحمداللہ قم المقدسہ میں مقیم اُردو شعراء کی ’’بزم استعارہ‘‘ نے حق تعالیٰ جل‌جلاله اور حبیبِ داور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لئے ایک شعری مقابلے کا اہتمام کیا ہے، جو فی الحال صرف ایران میں مقیم اردو شعراء (شاعران و شاعرات)تک محدود ہےلہٰذا ایران میں مقیم اردو شعراء کو اس مقابلے میں شرکت کی عام دعوت ہےـ وہ طلاب اساتید اور دیگر افراد جو تبلیغ یا گرمیوں کی چھٹی کی وجہ سے فی الحال ایران سے باہر ہیں مگر ایران میں انکی اقامت وہ بھی اس مقابلے میں حصہ لینے کے اہل ہونگےـ

مقابلے میں شرکت کی شرائط:
(۱) شاعرو شاعرہ کا ایران میں مقیم ہونا ضروری ہے۔ (۲) مقابلے میں صرف حمد و نعت شامل کی جائیں گی۔ (۳)ایک شاعر یا شاعرہ زیادہ سے زیادہ ۵ حمدیں اور ۵ نعتیں ارسال کرسکتا ہے۔ (۴) حمد و نعت میں ممدوح سے ہٹ کر اشعار  قابل قبول نہیں ہوں گے۔ (۵) جیتنے والے افراد کسی ایک ہی صنف (حمد / نعت) میں انعام کے حقدار قرار پائیں گے۔ (۶) حمد اور نعت 8 ربیع الاول ۱۴۴۱ھ تک موصول ہوجانی چاہیئں۔ (۷) حمد و نعت کے ہمراہ واٹس ایپ اور رابطہ کا نمبر ضرور ارسال کریں۔ (۸) نتائج کا اعلان ۱۷ ربیع الاول ۱۴۴۱ھ کو کیا جائے گا۔

1⃣پہلا انعام:250،000  تومان (۲ انعامات)
2⃣دوسرا انعام:150،000 تومان(۲ انعامات)
3⃣تیسرا انعام:100،000 تومان(۲ انعامات)
اس اشتہار کو حتی الامکان سوشل میڈیا پر نشر کر کے آپ بھی اس کارِ خیر میں شریک ہو سکتے ہیں۔

❇آپ اپنا کلام درج ذیل واٹس ایپ نمبر یا ایمیل پر ارسال کر سکتے ہیں:
0910-4632298
bazmeistiaara@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

⬅منجانب: بزم استعارہ۔ قم المقدسہ

مقابلہ حمد و نعت


طلوعِ عشق
مقابلۂ حمد و نعت

بحمداللہ قم المقدسہ میں مقیم اُردو شعراء کی ’’بزم استعارہ‘‘ نے حق تعالیٰ جل‌جلاله اور حبیبِ داور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرنے لئے حمد و نعت کا انعامی شعری مقابلہ ترتیب دیا جسمیں ایران میں مقیم شعراء نے بھرپور حصہ لیا. مقابلے کی نتائج کے اعلان اور تقسیم انعامات کے لئے ۱۶ ربیع الاول ۱۴۴۱ ہجری حسینیہ ابولفضل قم میں پرشکوہ تقریب منعقد کی گئی جس میں شعراء نے نذرانہ حمد و نعت پیش کیا. حمد اور نعت میں زین عباس صاحب، عابد کلیم صاحب، شمس بلتستانی صاحب اور بہادر زیدی ندیم صاحب انعامات کے حقدار قرار پائے. تقریب کے اختتام پر اراکین اور شعراء میں لوح تشکر و تحسین پیش کی گئی.  خدا تمام شرکاء کی توفیقات میں اضافہ فرمائے. 

اگلے شعری مقابلے کا اعلان جلد کیا جائے گا.
bazmeistiaara@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

⬅منجانب: بزم استعارہ۔ قم المقدسہ



طلوعِ عشق
مقابلۂ حمد و نعت

بحمداللہ قم المقدسہ میں مقیم اُردو شعراء کی ’’بزم استعارہ‘‘ نے حق تعالیٰ جل‌جلاله اور حبیبِ داور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور نذرانہ عقیدت پیش کرنے لئے حمد و نعت کا انعامی شعری مقابلہ ترتیب دیا جسمیں ایران میں مقیم شعراء نے بھرپور حصہ لیا. مقابلے کی نتائج کے اعلان اور تقسیم انعامات کے لئے ۱۶ ربیع الاول ۱۴۴۱ ہجری حسینیہ ابولفضل قم میں پرشکوہ تقریب منعقد کی گئی جس میں شعراء نے نذرانہ حمد و نعت پیش کیا. حمد اور نعت میں زین عباس صاحب، عابد کلیم صاحب، شمس بلتستانی صاحب اور بہادر زیدی ندیم صاحب انعامات کے حقدار قرار پائے. تقریب کے اختتام پر اراکین اور شعراء میں لوح تشکر و تحسین پیش کی گئی.  خدا تمام شرکاء کی توفیقات میں اضافہ فرمائے. 

اگلے شعری مقابلے کا اعلان جلد کیا جائے گا.
bazmeistiaara@gmail.com
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

⬅منجانب: بزم استعارہ۔ قم المقدسہ



۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایران میں مقیم اردو زبان شعراء (شاعر و شاعرات) سے درخواست ہے کہ وہ کم از دو حمد اور دو نعت درج ذیل نمبرز یا ایمیل پر ارسال کردیں شکریہ
09308125064 (ایتا اور ٹیلیگرام)
09104632298 (واٹسایپ)
09370332684 (سروش)
bazmeistiaara@gmail.com
bazmeistiaara@chmail.com

اس پیغام کو ایران میں مقیم اردو زبان افراد تک پہنچائیں

منجانب: اراکین بزم استعارہ قم المقدسہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

طبق زمین کے ہیں نور میں نہائے ہوئے

فرشتے بیٹھے ہیں محفل یہاں جمائے ہوئے

تمہاری یاد کو ہم دل میں ہیں بسائے ہوئے

تو لوح و عرش سبھی دل میں ہیں سمائے ہوئے

فرشتے زیر قدم پر ہیں یوں بچھائے ہوئے

"ہم آج محفلِ سجاد میں ہیں آئے ہوئے"

ادامه مطلب


کیا کفار سے جہاد صرف میدان جنگ میں فوج کی ذمہ داری ہے ہماری کوئی ذمہ داری نہیں؟؟؟

جی نہیں ـــ میدان جنگ میں لڑنا تو جہاد کی اقسام میں سے صرف ایک قسم ہے ہر ہر میدان میں کفار کے خلاف لڑا جاسکتا ہے مثلاً *سودی بینکنگ* کا بائیکاٹ کرکے بھی یہود ونصاریٰ کے خلاف جہاد کیا جاسکتا. *امپورٹڈ* چیزوں کی خریداری بند کرکے بھی جہاد کیا جاسکتا ہے بالخصوص وہ اشیاء جو براہ راست اسرائیلی یا امریکی ہیں جیسے *ایپل* کی مصنوعات.
تو جہاد کا کام صرف فوج پر نه چھوڑئیے سب اپنا اپنا حصہ ڈالئے


محرمِ رازِ وفا عشق آشنا کوئی نہیں
کیا جہاں میں مجھ سا باقی دوسرا کوئی نہیں
بھول جائیں گے ستم ان کے سمجھ کر بھول تھی
اب جہاں میں اس طرح سے سوچتا کوئی نہیں
تا نہ کوئی حرف آئے آپ پر بس اس لئے
اب لبِ بسمل پہ آئے گی صدا کوئی نہیں
اے مسیحا صرف تجھ کو دیکھنے آتا ہوں میں
ورنہ مجھ کو ہے خبر میری دوا کوئی نہیں
آگئے بہر عیادت کس قدر وہ زود تر
روح کا جب رابطہ دل سے رہا کوئی نہیں
دہر میں قصہ ہمارے عشق کا مشہور ہے
گرچہ کرداروں کو اس کے جانتا کوئی نہیں
اضطراب شوق میں تا عمر جاگے ہم مگر
تا دمِ مرگِ وفا آیا گیا کوئی نہیں
جانےکیوں اب بھی مجھے سب پر بہت ہے اعتبار
جانتا یہ بھی ہوں میں اب پارسا کوئی نہیں
رنج و غم ہے درد ہے حسرت، الم، الجھن، فراق
کہتا ہے کہ میرا آسرا کوئی نہیں
جانب منزل چلا تھا لے کے کشتی زیست کی
کس طرح ساحل ملے جب ناخدا کوئی نہیں
یاں نمائش زخم کرنا زخم دل کی ہے محسن عبث
یاں کسی بھی لب پہ آئے گی دعا کوئی نہیں
29 مئی 2011
کراچی


صنعت رد العجز علیٰ الصدر

جو لبِ صبا پہ آیا نئی صبح کا فسانہ
نئی صبح کا فسانہ با نوائے عاشقانہ
با نوائے عاشقانہ جسے گا رہا ہے بلبل
جسے گا رہا ہے بلبل ہے بہار کا ترانہ
ہے بہار کا ترانہ، جو نسیم نغمہ خواں ہے
جو نسیم نغمہ خواں ہے با سرودِ مخفیانہ

ادامه مطلب


طرحی مصرع: ایک ہے خطبہ زینب کا اور اک خطبہ سجاد کا ہے

ایسا نگاہ خالق میں رتبہ والا سجاد کا ہے
کعبہ منا اور مروہ صفا سب کچھ ورثہ سجاد کا ہے

یوں تو عبادت میں حیدر کا کوئی نہیں ثانی لیکن
سجدہ گذاروں کا.سید بس نام ہوا سجاد کا ہے

نہج بلاغہ ایک تجلی جیسے ذات حیدر کی
ایسے زبور آل احمد اک جلوہ سجاد کا ہے

ان کاصحیفہ پڑھ کے خدا کی آپ رضا پا سکتے ہیں
یعنی وہاں بھی جو چلتا ہے وہ سکہ سجاد کا ہے

حمد خدا اور نعت نبی کا کیف تو پائے گی ہی زباں
میرے لبوں پر سانجھ سویرے ذکر سجا سجاد کا ہے

جان ہتھیلی پر رکھ کر کیونکر نہ رہ الفت پہ چلو
شکر خدا تن من دھن سب کچھ نام خدا سجاد کا ہے

کرب و بلا ہے فکر حسین ابن حیدر کا آئینہ
شام میں تخت و تاج الٹنے کا نقشہ سجاد کا ہے

خلق خدا مقروض نہ ہوگی کیسے بھلا سجاد کی جب
دین محمد کے کاندھوں پر بھی قرضہ سجاد کا ہے

جس نے نقاب روئے باطل بعد زہرا چاک کیا
ایک ہے خطبہ زینب کا اور اک خطبہ سجاد کا ہے

عرش کے باسی فرش زمیں پر نور کی بارش کرنے لگے
میں نے تو بس محفل میں آکر نام لیا سجاد کا ہے

در پہ جناں کے مجھ کو روکا جب رضوان جنت نے
کہنے لگا مالک جانے دے یہ بندہ سجاد کا ہے

بتلا دو صائب یہ جہاں کو کیا ڈرنا آلام سے جب
رحمت رب بن کر قائم سر پر سایہ سجاد کا ہے
صائب جعفری
۱۳ مارچ ۲۰۲۰
۱:۴۰ بامداد
قم المقدس ایران


 

۱. کب یہ مجالِ علم ہے میرے کریم اے خدا
حمد تری قلم  لکھے میرے کریم اے خدا

۲. تو رگِ جاں سے ہے قریں پھر بھی ہیں ہم میں دوریاں
تو ہی مٹا یہ فاصلے میرے کریم اے خدا

۳. میرے گناہ بخش کر میرا وجود پاک کر
ہستی مری سنوار دے میرے کریم اے خدا

۴. صوم و صلاۃ حج زکاۃ امر و نہی که حبُّ و بغض
کاش ہوں سب ترے لئے میرے کریم اے خدا

۵. کرلے قبول تو اگر مجھ کو تو پھر نہیں غرض
کچھ ہوں جہاں کے فیصلے میرے کریم.اے خدا

۶. رازِ دروں عیاں کرے حبِّ جہاں دھواں کرے 
شمع وفا جو جل اٹھے میرے کریم اے خدا

۷. تیرا کرم جو شاملِ حال ہو تو میں طے کروں
عشق کے سارے مرحلے میرے کریم.اے خدا

۸. شعلہِ عشق کی لپک تیرے وصال کی تڑپ
اور بڑھیں یہ سلسلے میرے کریم اے خدا

۹. جس کو ملی تری رضا دار تلک وہ آگیا
عشق کا راگ الاپتے میرے کریم اے خدا

۱۰. تیرے وجود سے ملے میرا وجود تو کھلیں
ہستی کے مجھ پہ مرتبے میرے کریم اے خدا

۱۱. سجدے میں سر کو رکھ کے صائب یہ کہو بچشم نم
اپنا بنا لے اب مجھے میرے کریم.اے خدا
صائب جعفری


خواہشِ فکر ہے بس جذبہِ دل کی تالیف

گو کہ گفتار ہے اسلاف سے حد درجہ ضعیف

سوزشِ عشق پکاری اے خدائے قاسمؑ

لفظ وہ دے کہ ادا جن سے ہو حقِّ توصیف

شکر کی جاء ہے کہ پوری یوں ہوئی میری دعا

عشق نے کردیا اک مطلعِ نو یوں تصنیف

مطلع دیگر

راہیِ جادہِ عرفاں جو ہوئی فکرِ لطیف

بہرِ قاسمؑ یوں ثناء خوان ہوا کلکِ شریف

نازشِ فرقِ عبادات، اطاعت میں حنیف

ضامنِ حرمتِ عبد اور وفا کی تشریف

حسن ڈھالا گیا قرآن کے سانچے میں ترا

حسنِ یوسفؑ میں کہاں تاب بنے تیرا حریف

مثلِ واللیل ہیں گیسو ترے، ابرو ہیں قدر

اور رخسار ہیں تشریح ِشفق باالتضعیف

چہرہ والشمس ہے اور چاہِ ذقن مثلِ قمر

چشمِ ضو بار ہے والنجم کی دیگر تالیف

مثلِ یاسین ضیاء بار تیری پیشانی

بر لبِ لعل ہے لولو سے لبو ں کی تعریف

سر  بسر نور کی تقریب کا حامل ہے بدن

یعنی طٰہٰ کا سرا پا ہے بغیر از تحریف

باخدا دونو ں میں تفریق کا امکاں بھی نہیں

حُسن کی بیت میں قاسمؑ ہے یوں اکبرؑ کی ردیف

یوں مشیت نے سنوارا ہے سراپا تیرا

حور بھی تیرے مقابل ہو تو لگتی ہے کثیف

ق

ہاشمی خوں کا اثر کرب و بلا میں یوں کھلا

حسن کر پایا نہ کچھ عزم و شجاعت کو خفیف

اک اچٹتی ہوئی ڈالی جو نظر بہرِ وغا

لشکرِ شام ہوا تنکا پئے بادِ شغیف

ارزقِ شامی با اولاد و ہمہ لشکر خویش

تیری صمصام کے آگے نظر آتا ہے نحیف

ربِّ کعبہ نے عطاکی وہ مسیحائی تجھے

فیض کا تیرے دم عیسیٰؑ نہ ہو پایا حریف

داد و تحسیں کا طلب گار  نہیں، جانتا ہوں 

بہرِ ترویجِ ثناء میرا ہے جبریل حلیف

نطق بےنطق مرا ضعفِ زباں دانی سے تھا

بس ترے نام کا صدقہ ہے ہوا ضعف، ضعیف

عالمِ یاس میں ہوں حال دگر ہے لیکن

مطمئن قلب ہے، وابستہ ہے تم سے تصریف

خوف کیا جب کہ ہے قاسمؑ سا میرا پشت پناہ

شوق سے وسوسہِ دل کرے کارِ تخویف

جب ہے منسوب یہ فدوی درِ قاسمؑ کے ساتھ

مشکلیں کیسے کریں اس کے ارادوں کو خفیف

ناطقے بند زباں دانوں کے کر دوں صائبؔ

اپنے انداز کا کر دوں جو قصیدہ تصنیف

۷ شعبان ۱۴۴۱

31/3/2020

 قم


قطعات

-۱-

تجسیم نور یزداں واللہ مرتضیٰ ہے
قرآن کی طرح ہی، احمد کا معجزہ ہے
مصروف روز شب ہوں میں مدح مرتضی میں
یعنی لبوں پہ ہر دم قرآن کی ثنا ہے
۲۰ جمادی الاولی ۱۴۴۱ قم

-2-

جو مجھ کو دامن اژدر شکار مل جائے

جوار رحمت پروردگار مل جائے

یہی ہے صبح و مساء میری التجا رب سے

میری لحد کو نجف کی بہار مل جائے

۱۳ رجب ۱۹۹۹ کراچی

ادامه مطلب


بصارتوں کو بصیرت ملی تو یہ جانا
حقیقت ایک ہے وہ تو ہے باقی افسانہ
خیال و خواب کی دنیا سے کیا شغف ان کو
شعور بخش دے جن کو شراب مستانہ
میں سن کے آیا ہوں تیری سخاوتوں کا بیاں
لنڈھا شراب نہ تک یونہی میرا پیمانہ
رقیب حسن نے سجدے میں سر رکھا تو کھلا
ریاضتوں کا ثمر ہے ادائے رندانہ
حجاب غیر سے واجب ہے اے پری وش پر
اٹھا نقاب کہ محرم سے کیسا شرمانا
نظر پڑے جو ان آنکھوں کو نقش پا تیرا
ادا کروں میں اسی سجدہ گہ پہ شکرانہ
یہ عشق ایسے مری چاہتوں کا مان رکھے
رہ وفا میں شہادت کا پاؤں پروانہ
تمام دہر کی تاریکیاں ہیں یوں مایوس
تمہاری یاد سے روشن ہے دل کا کاشانہ
صائب جعفری 
۷ اپریل ۲۰۲۰
قم


انا کا خول توڑ کر اگرچہ کچھ بکھر گیا
مگر بفیضِ عشق میں حقیتاً سنور گیا
کسوفِ غم سے شمسِ انبساط پائے گا نجات
یہ زندگی کا سلسلہ ظہور تک اگر گیا
اگر تمہارے عشق کا ہیں ارمغاں، قبول ہیں
جنوں کی تہمتیں زمانہ سر مرے جو دھر گیا
تمام چاہ خشک تھے ہرایک در پہ قفل تھا
مگر تمہاری چاہ میں غریب دربدر گیا
یہ زہر ہجر تلخ ہے مگر اسی کے فیض سے
خدا کا شکر جز ترے ہر اعتبار مر گیا
زمانے کو خبر نہیں، مریض عشق ہوکے چپ
خود اپنے دل میں کھوجتا ہے چارہ گر کدھر گیا
بہار رت کے سارے منظروں کو کھا گئی کُہُر
*غمِ فراقِ یار چشمِ شوق میں اتر گیا*
اٹھا جو شب کی کوکھ سے فقط شرار تھا مگر
پئے مآل آرزو وہ تا دم سحر گیا
گمان کے سراب سے شہود کے یقین تک
شعور سربسر گیا مگر بچشم تر گیا
سوائے وصل یار کے کچھ آنکھ میں بچا نہیں
ہرایک خواب ٹوٹ کر وجود میں بکھر گیا
تمہارے نقش پا سے گر جبیں کوئی چرا گیا
تو بے سیاں ملیں سجود سے اثر گیا
کہاں کی نیند کیسا خواب کیا س کیا قرار
اگر نہیں ہے بَر میں یار سمجھو رند مر گیا
عریضہ ان کے ہاتھ میں پہنچ چکا ہے بالیقیں
کہ صائبِ حزیں کا بے قرار دل ٹھہر گیا

صائب جعفری
۱۴ شعبان المعظم ۱۴۴۱ ھ
۸ اپریل ۲۰۲۰ ء


قطعات

-۱-

تجسیم نور یزداں واللہ مرتضیٰ ہے
قرآن کی طرح ہی، احمد کا معجزہ ہے
مصروف روز شب ہوں میں مدح مرتضی میں
یعنی لبوں پہ ہر دم قرآن کی ثنا ہے
۲۰ جمادی الاولی ۱۴۴۱ قم

-2-

جو مجھ کو دامن اژدر شکار مل جائے

جوار رحمت پروردگار مل جائے

یہی ہے صبح و مساء میری التجا رب سے

میری لحد کو نجف کی بہار مل جائے

۱۳ رجب ۱۹۹۹ کراچی

 

3

جس وقت شہود عالم میں اس دل کا قرار آجائے گا

اس وقت عروسِ ہستی کے عارض پہ نکھار آجائے گا

مقراض ہجر کے زخموں کو مرہم سے شناسائی ہوگی

مٹ جائے گی کلفت فرقت کی جب جان بہار آجائے گا

۱۵ شعبان ۲۰۰۵ کراچی

 

4

اٹھا کے جام مئے شہادت شہید ہوجا سعید ہوجا

یہ فیصلہ تیرے ہاتھ میں ہے حسین بن یا یزید ہوجا

عطا ہو پھر سوزش محبت ہو پھر سے دل طالب حقیقت

اے غیرت جلوہ گاہ سینا نگاہ مومن کی دید ہوجا

۱۰ رجب المرجب ۲۰۰۹ کراچی

 


صنعت رد العجز علیٰ الصدر

جو لبِ صبا پہ آیا نئی صبح کا فسانہ
نئی صبح کا فسانہ با نوائے عاشقانہ
با نوائے عاشقانہ جسے گا رہا ہے بلبل
جسے گا رہا ہے بلبل ہے بہار کا ترانہ
ہے بہار کا ترانہ، جو نسیم نغمہ خواں ہے
جو نسیم نغمہ خواں ہے با سرودِ مخفیانہ
با سرودِ مخفیانہ ہے کلی کہیں پہ رقصاں
ہے کلی کہیں پہ رقصاں کہیں غمزے دلبرانہ
کہیں غمزے دلبرانہ کہیں وجد میں طبیعت
کہیں وجد میں طبیعت با جنونِ والہانہ
با جنونِ والہانہ کیا کشف عقل و دل نے
کیا کشف عقل و دل نے نیا رمز عالمانہ
نیا رمز عالمانہ جو قلم تک آن پہنچا
جو قلم تک آن پہنچا مرے شعر جاودانہ
بطفیل نورِ باقر لو.وہ ابھرا شمسِ حکمت
لو وہ ابھرا شمس حکمت ہوا جہل خود فسانہ
تری محنتوں کے باعث تری تن دہی کے صدقہ
ملی حکمتوں کو منزل ملا علم کو ٹھکانہ
تھی وہ تیری ذمہ داری، ترا حوصلہ تھا جس پر
در مصطفیٰ سے آیا وہ سلام صادقانہ
یوں عیاں کیا تھاتو نے روئے علم و آگہی کو
نہ بچا جہالتوں کے لئے کوئی بھی بہانہ
یوں غرورِ فاقہ مستی کو جِلایا تو نے مولا
کہ ہوا دھواں امیروں کا غرورِ ظالمانہ
تری سلطنت کا حصہ ترے دم قدم سے قائم
یہ زمین کا بچھونا یہ فلک کا آشیانہ
تری جانفشانیوں نے یوں بساطِ ظلم الٹی
چلی تاج کی نہ کوئی کبھی چال شاطرانہ
نہ نمود  و نام چاہا، نہ کی خواہشِ حکومت
کیا دین آشکارا، بطریقِ محرمانہ
ہے انہیں گناہ سے نفرت ہمیں لاگ ہے گنہ کی
یہ ہے با خدا تجاہل، پہ نہیں ہے عارفانہ
درِ علم پر پڑے ہیں ترے نام لیوا لیکن
نہ ہے بوئے عالمانہ، نہ ہے خوئے ناصحانہ
یہ فریب، دھوکہ بازی، یہ حسد ، غرور، کینہ
فی زمانہ ہو چلی ہے یہی رسمِ دوستانہ
جو زمانے کی حقیقت ہوئی مجھ پہ آشکارا
تو بحالِ گریہ گویا ہوا قلب خاضعانہ
ترے در پہ آگیا ہوں لئے قلب ، خاشعانہ
کہ نصیبِ دل ہو مولا ترا عشق بے کرانہ
میں ہوں مدح خوانِ باقر تو خدا سے اپنے صائب
میں سوائے قرب مولا، کوئی لونگا محنتانہ؟


کراچی میں اردو کے کئی ایک.لہجے ہیں انہی میں سے ایک.لہجے میں منقبت کے اشعار پیش خدمت ہیں

نعلت کی رسی اس کی گردن میں ڈال دی ہِے
یونہی تو ماویہ سے صلحا نہیں کری ہِے
لگتا ہے ماویہ کی مَییَا مری پڑی ہِے
ملا کی جب ہی سوجی وی آج تھوتھنی ہے
مولا کی ہے پدائش کا دن مگر بتاو
ملا کے تھوبڑے پر کیوں مردنی مچی ہِے
اِے ماویہ گٹر سے  رستا ہِے جِیسے پانی
تیری شَکَل سے نعلت ایسے ابل ریی ہے
او ہندہ کی نَسَل تو دوزخ میں کھا چپیڑیں
مولا سے دھوکے بازی تو نے بہت کری ہے
تیرا کرم ہے مولا ہے نوکری لگی وی
مججد بھی ہے کھلی وی  مجلس بھی ہو رَیی ہِے
کوئی جگاڑ لگ جائے حج کا ثواب مل جائے
ماتم بھی کر را ہوں میں منت بھی مانگ لی ہے
اک بار کربلا کا چانَس ملے جو مجھ کو
سمجھوں گا میرے مولا میری نکل پڑی ہے
مولا یئیں پے مجھ کو دے دے قَبَر قسم سے
جاکر مدینے میں نے اِت تی سی بات کی ہے
نعرے لگاؤ پارَک میں سب ملنگ کھل کر
میں نے کُورَنگی لانڈھی کی یہ نظَم پڑی ہے
آکر فرشتے لوگوں نے اس جَشَن میں صائب
نکڑ پہ دل کے رونق کیسی لگائی وی ہے
۷ رمضان المبارک ۱۴۴۱


:

*طرحی محفل بمناسبت میلاد مسعود آفتاب دوم چرخ امامت مولانا و سید شباب اہل الجنۃ *امام حسن مجتبیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام*

مصرع طرح: *نور حسن سے روشن کاشانہِ علی ہے*


*قندیلِ حق میں کوثر کی شمع جل رہی ہے*
*نورِ حسنؑ سے روشن کاشانۂِ علی ہے*

*ملتا ہے مدحِ احمدؐ کا ذائقہ زباں کو*
*یعنی حسنؑ کی مدحت، نعتِ محمدیؐ ہے*

*صلحِ نبیؐ نے فتحِ مکّہ کی راہ کھولی*
*صلحِ حسنؑ میں فتحِ کرب و بلا چھپی ہے*

*سب انبیاء ؑ کی محنت خطرے میں پڑگئی تھی*
*تیرے قلم کی جنبش سب کو بچا گئی ہے*

*نوکِ قلم نے کاٹی، شہ رگ منافقت کی*
*قرطاس اب برائے اسلام زندگی ہے*

*سفیانیت ہے حیراں، کس طرح سے قلم نے*
*تیغوں کو مات دے کر، یہ جنگ جیت لی ہے*

*اندازِ جنگ بدلا، معیارِ فتح بدلا*
*شمشیر ایک حیرت سے کِلک تک رہی ہے*

*ان کو کریم پا کر، دستِ طلب بڑھائے*
*صف میں گدا گروں کی، خود زندگی کھڑی ہے*

*اب لب کشائی کیونکر ان کے حضور کیجے*
*اشکوں نے بات دل کی مولاؑ سے کہہ تو دی ہے*

*معراجِ بندگی کو، نقش قدم تمہارا*
*پیشانی بہرِ سجدہ، ہر سمت ڈھونڈتی ہے*

*دار و رسن کی نعمت، دیوانگی کا تمغہ*
*منظور  جان و دل سے یہ رسمِ عاشقی ہے*

*ایقان کی ہے منزل، صائبؔ تمہیں یقیناً*
*دربارِ مصطفیٰؐ سے داد سخن ملی ہے*

*صائب جعفری*
*۱۵ رمضان المبارک*
*قم ۔ ایران*


آخرین مطالب

آخرین ارسال ها

آخرین جستجو ها